حاجی الحرمین شریفین کریم الطرفین قطب الاقطاب حضرت سیدنا سید محمد ن القادری بغدادی ثم امجھری آپ کا نام نامی اسم گرامی محمد ہے آپ کا شجرہء نسب و سلسلہ بیعت و طریقت غرق دریائے قدرت حضرت شیخ سیدنا محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے اور اسی مناسبت سے آپ کو قادری کہتے ہیں آپ کے سلسلے کے مریدین و متوسلین و اولاد آپ کو سید الہند امیر الہند اور سیدنا پاک کہتے ہیں۔
آپ کے خلف اکبر سید معین الدین علیہ الرحمہ تھے اور انہیں کے نام پر حضرت سیدنا کی کنیت ابو معین الدین مشہور ہوئی ۔ آپ بے شمار القاب سے ملقب تھے چنانچہ چند مشہور القاب یہ ہیں حاجی، والی، عارف، کاشف، خادم، عالم، واصل، فاضل، عاقل، کامل، نقی، تقی، متقی، سراج، عزیز، منور، معمور، مبارک، معین، حکیم، مونس، رفیع، قادری، حافظ، جیلی، جیالی، جمالی، واعظ، کریم، سلیم، شریف، لطیف، محدث، عاشق، ساجد، ذاکر، عابد، زاہد، کاظم، سالک، صادق ، مجاہد، حامد، ذکی، حبیب، محب، محبوب، مطلوب، راشد، مرشد، طاہر، جمیل، فاتح، غازی، ہاشمی، قریشی، مُصطفوی، مرتضوی، حیدری، حسنی، حسینی، مکی، جیلانی، بغدادی، امجھری وغیرہم ۔ یہ وہ چند القاب ہیں جو زبان زد عام رہے ہیں لیکن کہاں تک لکھا جائے زبان قلم ان القاب کے اظہار سے عاجز ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت سر زمین بغداد شریف میں ٢٥ رمضان المبارک ٨١٠ ھ بروز جمعرات ہوئی ۔ آپ کے پدر بزرگوار کا اسم گرامی حضرت سید شاہ شمس الدین درویش قادری علیہ الرحمۃ و الرضوان ہے جو حضرت قطب الاقطاب سیدنا غوث پاک جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی آل پاک میں تھے آپ بغداد شریف میں اپنی آبائی خانقاہ قادریہ کے صاحب سجادہ تھے آپ کا شمار اس وقت کے مشہور و معروف اکابر علماء و مشائخ میں ہوتا تھا آپ اپنے وقت کے صاحب کشف و کرامت بزرگ، بڑے متقی و پرہیز گار عالم دین تھے ۔ سرکار سید الہند علیہ الرحمۃ و الرضوان کی والدہ ماجدہ بی بی فاطمہ رحیمہ اللہ بھی انتہائی عابدہ اور زاہدہ تھیں جو سید عبد العلی حسنی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر تھیں ۔ (سید عبد العلی حسنی رحمتہ اللہ علیہ کا شجرہ نسب حضرت سید عبد اللہ صوفی جیلانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے جا ملتا ہے)۔
حضرت سید الہند رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف ساتویں سال کو پہنچی تھی کے آپ کے پدر بزرگوار نے حضرت شیخ خلیل اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے مدرسہ میں داخلہ کروایا حضرت سید الہند رضی اللہ تعالی عنہ نے حفظ قرآن کریم و قرات کی تکمیل کے بعد ادب فقہ اصول فقہ اصول حدیث علم مناظرہ علم سمع اسماء و رجال حدیث علم تصوف علم تفسیر حضرت شیخ جلیل اللہ حضرت شیخ ابو اسحاق حضرت شیخ ابو مکارم جنیدی شیخ عبداللہ سعدی شیخ ابو الخیر عبد الرحیم اور شیخ ابو الناصر عبدالغفار نجفی اور حضرت علامہ ابو الفرح جنیدی علیہ الرحمۃ و الرضوان سے حاصل کی۔ اس طرح آپنے صرف ٢٣ سال کی عمر میں تمام علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل کر اپنے والد بزرگوار کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوے۔ ٨٣٧ ھ میں والد بزرگوار علیہ الرحمۃ و الرضوان نے ارشاد فرمایا کہ بارگاہ رسالت میں حاضری دینے کا وقت ہے لہذا آپ مسجد نبوی میں اعتکاف کریں دوران اعتکاف آپ کو ہر طرف ا ُدعُ الخلق الالحق کی آواز سنائی دیگی یعنی مخلوق خدا کو حق کی طرف بلاو لیکن اس آواز کی طرف توجہ نہ کرنا جب تک بذاتِ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چہرہ زیبا کی زیارت نہ ہو جائے اس وقت سید کونین ختم المرسلین رسول بر حق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تمہیں جو حکم دیں فوراً اس پر عمل کرنا اور اس فرمان پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کرنا۔ چنانچہ بحکم پدر بزرگوار ٦ مہینہ تک آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان معتکف رہے پھر ایک دن سرور دو عالم نے اپنے چہرہ انور کی زیارت سے مستفیض فرمایا اور تبلیغ دین کی اجازت عطا کردی تو اسی زمانہ میں حج قریب آ گیا اور آپ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تشریف لے آئے حج و عمرہ ادا کرنے کے بعد وہاں ٨ سال قیام فرمایا درس و تدریس اصلاح و تبلیغ و وعظ کی محفلوں کا سلسلہ شروع کیا جنمیں علماء مشائخ شریک ہوتے اور بہت سے مرد خواص و عوام آپ کے حلقہ ارادت میں آتے ٨ سال کے درمیان ہزاروں بندگان خدا نے آپ سے فیض حاصل کیا ٨ سال مکہ معظمہ میں گزارنے کے بعد آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوے ٢ ماہ والد کے ساتھ رہے ایک رات سرور دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خواب میں جلوہ افروز ہوے اور اسلام کی ترویج و اشاعت اور مظلوموں کی فریاد رسی کے لیے ہندوستان جانے کا حکم دیا لہٰذا بیدار ہونے کے بعد آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے والد بزرگوار سے ہندوستان کے سفر کی اجازت طلب کی والد بزرگوار نے اجازت دیتے ہوئے ایک نصیحت فرمائی کہ آپ ہندوستان پہنچ کر وہاں پہلے سے موجود ہمارے خاندانی بھائیوں کے یہاں کسی سے رسم مناکحت بھی ادا کر لینگے تاکہ حضور ﷺ کی سنت بھی ادا ہو جاے چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنے ٤٠ خلفاء کے ساتھ اپنے خاندانی تبرکات جو والد نے عطا کیے تھے وہ ساتھ لے کر ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوے متعدد مقامات پر قیام کرتے ہوئے آپ کی ہندوستان میں امجھر شریف میں ٨٤٦ ھ میں تشریف آوری ہوئی دوران سفر لا تعداد کرامات کا ظہور آپ کی ذات مبارکہ سے ہوا جسمیں قیام کنگھار کے وقت دل کی شہادت والا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان جب کنگھار میں قیام پزیر تھے علماء فضلاء مشائخ عوام و خواص آپ کی محفل میں وعظ سننے و مسئلہ کے حل کے لیے جوق در جوق آتے ایک دن کسی شخص نے حضرت سے ایک سوال کیا کہ جس عورت کے سر کے بالوں کی چوٹی گوندھی ہو یا جوڑے بندھے ہوں اسے غسل کے وقت کھولنا اور سب بالوں کو بھگو دینا ضروری ہے یا نہیں سیدنا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے جواباً فرمایا کہ حدیث شریف میں وارد ہے حضرت نبی ﷺ نے حضرت ام سلمہ کو فرمایا کہ جب چوٹی گوندھی ہوئی ہو تو بالوں کی جڑوں کا تر ہوجانا ہی کافی ہے اس مجلس میں شیخ منصور بھی موجود تھے جو قندھار کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے اس حدیث کے سنتے ہی ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے آرام اور سہولت کی خاطر اس طرح پر ارشاد فرمایا ہو حضرت سیدنا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے شیخ منصور کے اس خیال کو نور باطن سے معلوم کر لیا اور فرمایا اے شیخ منصور آپ نے ابھی جو خیال کیا ہے اس سے توبہ کریں اور شیخ منصور یہ خیال جو کفر کی حد تک پہنچانے والا ہے اسے کہاں سےدل نشیں کر لیا فوراً توبہ کریں شیخ اس بات کو سن کر پشیمان ہونے کے بجائے برہم ہو گۓ اور حضرت پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ آپ عوام میں اپنی دوکان چمکانے اور خود کو صاحب کشف و کرامت ہونے کا یقین دلانے کے لیے ایسا کہ رہے ہیں حضرت نے رنجیدہ ہو کے فرمایا تو مجھے جھوٹلاتا ہے دیکھ تیرا دل خود ہی اس واقعہ کی شہادت دے گا حضرت سیدنا علیہ الرحمۃ و الرضوان کا یہ کہنا تھا کہ شیخ منصور کا دل حرکت میں آیا اور بکمال فصاحت اسنے حضرت کے کلام کی تصدیق کی اس واقعہ سے حاضرین مجلس پر لرزاں طاری ہوگیا محفل میں جو علماء موجود تھے فرمانے لگے کہ ہم نے قرآن میں پڑھا کہ اعضاء انسانی گواہی دینگے اور یہ روایت ہم نے سنی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام پر حمل ہی کہ اندر ایک لڑکے نے گواہی دی یوسف علیہ السلام پر ٢ ماہ کے بچہ نے شہادت دی اور حضرت داود علیہ السلام کے عہد میں قاتل کا ہاتھ ہی بول اٹھا لیکن آج یہ حالت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں اس وقت چند بت پرست بھی حاضر تھے اس کرامت سے متاثر ہو کر فوراً مشرف با اسلام ہوے حاکم نے شیخ منصور کو قتل کرانا چاہا مگر حضرت نے روکا اور شیخ سے توبہ کرائی شیخ منصور نے بیعت کی خواہش ظاہر کی مگر آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے فرمایا کہ پہلے ممکن تھا پر اب مناسب نہیں۔
سید الہند علیہ الرحمۃ و الرضوان بغداد سے تقریباً ٧ ماہ ١١ روز کے طویل سفر کے بعد اپنے چالیس خلفاء و خدام کے ساتھ نرہنہ جنگل میں پہنچے یہ جنگل نہایت ہی خوفناک جنگل تھا اس خوفناک جنگل میں ایک مضبوط اور مستحکم قلعہ راجا جیون کا تھا جو ایک نہایت ہی ظالم اور مسلم دشمن راجا تھا وہ مسلمانوں سے بے حد نفرت کرتا اور انکا قتل عام کرواتا تھا اس کے تمام حرکات کی خبر حضرت شیخ علی ہندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت سیدنا علیہ الرحمۃ و الرضوان کو دی تو حضرت سیدنا نے شیخ علی ہندی علیہ الرحمہ کو ساتھ لے کر راجا جیون کے پاس گۓ اور اسے نصیحت کی کہ تو اپنی بد فعلی اور اسلام دشمنی سے باز آجا ورنہ عتاب الٰہی سے برباد ہو جائے گا راجا جیون نصیحت سن کر برہم ہو گیا اور غیظ و غضب سے اس کا بدن جلنے لگا مگر سیدنا علیہ الرحمۃ و الرضوان کے رعب و جلال کے آگے وہ کچھ کر نہ سکا حضرت سیدنا وہاں سے واپس تشریف لے آئے اور بارگاہ الٰہی میں دعا گو ہو کر فرمایا یا اللہ راجا جیون کا حشر فرعون و نمرود کی طرح کر دے حضرت سیدنا کا یہ فرمانا تھا کہ خوب گھنہ بادل اٹھا اور طوفانی بارش ہونے لگی جس سے راجا جیون کا قلعہ تباہ و برباد ہو گیا اور راجا جیون مع اہل و عیال اسی میں دب کر جہنم رسید ہو گیا حضرت سیدنا نرہنہ جنگل میں جب تک رہے اپنے خلفاء و خدام کی تربیت فرماتے رہے ساتھ میں شمعون جن اپنے گروہ کے ساتھ تشریف لاتا آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان انہیں وعظ و نصیحت فرماتے رہے اور پھر کچھ ماہ کے بعد آپ علیہ الرحمۃ و الرضوان امجھر شریف تشریف لے آئے اور یہاں اپنا عصا مبارک زمین میں نسب کر دیا اور فرمایا کہ اب میں یہیں مستقل قیام کرونگا پھر وہ عصا سبز و شاداب ہو گیا اس میں شاخیں پھل اور پھول نمودار ہو گئے جو آج تک اجناس کا یہ شجر روضۂ حضرت سیدنا کے پاس موجود ہے
یہیں مستقل قیام کیا خانقاہ قائم کی دین کی ترویج و اشاعت کا کام شروع کیا خلق خدا کی ظاہری و باطنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جو سلسلہ آج تک آپ کی اولاد امجاد کے ذریعہ جاری و ساری ہے حضرت سیدنا امجھری علیہ الرحمۃ و الرضوان ٣٠ صفر المظفر ٩٤٠ ھ کو ١٣٠ سال کی عمر شریف میں اپنے معبود حقیقی سے جا ملے آپ کا مزار شریف امجھر شریف صوبہ بہار میں مرجع خلائق ہے موجودہ صاحب سجادہ شہزادہ سیدنا پاک علیہ الرحمۃ و الرضوان حضور ملت حضرت الحاج سید شاہ شرف الدین نیر قادری مدظلہ العالی اپنےاسلاف کے نقش قدم پر خانقاہ عالیہ قادریہ محمدیہ کی تمام ذمہ داریوں کو بڑی ہی خوش اصلوبی سے انجام دیرہے ہیں اور بہت سارے تشنہ کاموں کو فیضانِ سید الہند سے سیراب فرما رہے ہیں آپ کے دورِ سجادگی میں تحریری تعلیمی تحریکی تعمیری کام خوب ہورہا ہے. ملک کے مشاہیر علماء و حفاظ آپ سے خلافت و اجازت حاصل کرنا فخر کی بات سمجھتے ہیں ناچیز کو بھی آپ کی بارگاہ سے خلافت و اجازت کا شرف حاصل ہے. حضورِ ملت کے خلفا کی تعداد کثیر ہے اور سب کے سب جو جس علاقے میں ہیں شریعت کے پابند اور دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت میں شب و روز سرگرم ہیں. حضور صاحبِ سجادہ کی ہی سرپرستی میں ہر سال تزک و احتشام کے ساتھ عرس سیدنا پاک علیہ الرحمۃ و الرضوان منایا جاتا ہے الحمد لله ثم الحمد لله تقریباً ٦٠٠ سال سے امجھر شریف میں فیوض و برکات کا یہ چشمہ جاری و ساری ہے جس سے صوبہ ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں کے اشخاص بھی فیضیاب ہو رہے ہیں اللہ رب العزت اس چشمہ فیض و کرم کو ہم غلامان و عاشقان سیدنا پاک علیہ الرحمۃ و الرضوان پر صبح قیامت تک جاری و ساری فرماے آمین بطفیل سید المرسلین۔
ماخوز از. حیات سیدنا رضی اللہ تعالی عنہ. و بغداد سے امجھر۔
از قلم. سید ابوذر حسنات شیرازی قادری ابدالی
خادمِ خانقاہ قادریہ ابدالیہ. و مدرسہ قادریہ صابریہ فیضانِ ابدال.
سہسرام.