Biography Bahlool Dana | Baholool Ke Waqiyaat | حضرت بہلول دانا کا تعارف و واقعات

 


حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کوفہ میں پیدا ہوئے آپ کا اصل نام وہاب بن امر تھا، آپ حضرت امام جعفر صادق کے شاگرد اور امام موسی کاظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام موسی کاظم کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ امام موسی کاظم سے ملے جو اس وقت زیر حراست تھے جب امام موسی کاظم سے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ نے صرف ایک حرف "ج" لکھ کر دیا۔ اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا۔ "ج" سے جلا وطن، جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا کے لیے "ج" سے جنون۔

اگلے روز آپ نے اپنی عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ حلیے میں بغداد کی گلیوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ جلد اہل بغداد نے آپ کو بہلول مجنون کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اس طرح آپ ہارون الرشید کے عتاب سے محفوظ ہو گئے۔ ذیل میں حضرت بہلول دانا کے چند مشہور واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے مصلحت کے تحت مجزوبانہ حلیہ اپنایا تھا۔

--------------------------------------------------

کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کی دلی تمنا تھی کہ حضرت بہلول دانا رح اس سے ملاقات کریں لیکن آپ رح کبھی بھی اس کے دربار میں تشریف نہ لے گئے.. ایک دن یوں ہوا کہ ہارون الرشید اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا کہ اس نے حضرت بہلول دانا رح کو شاہی محل کے قریب سے گزرتے دیکھا.. فورا حکم دیا کہ حضرت بہلول دانا رح کو کمند ڈال کر محل کی چھت پر کھینچ لیا جائے.. چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.. جب آپ رح ہارون الرشید کے سامنے پہنچے تو اس نے پوچھا.. " یہ فرمائیے کہ آپ اللہ تک کیسے پہنچے..؟ " آپ نے فرمایا.. " جس طرح آپ تک پہنچا.. " ہارون الرشید نے کہا.. " میں سمجھا نہیں.. " فرمایا.. " اگر میں خود آپ تک پہنچنا چاہتا تو نہا دھو کر ' لباس فاخرہ پہن کر ' دربان کی منتیں کر کے محل کے اندر داخل ہوتا.. پھر عرضی پیش کرتا ' پھر گھنٹوں انتظار کرتا ' پہر بھی ممکن تھا کہ آپ میری درخواست رد کر دیتے.. لیکن جب آپ نے خود مجھے بلانا چاہا تو محض کچھ لمحوں میں ہی اپنے سامنے بلا لیا.. " اسی طرح جب اللہ کو اپنے بندے کی کوئی ادا پسند آتی ہے تو اسے لمحوں میں قرب کی وہ منزلیں طے کروا دی جاتی ہیں جو بڑے بڑے عابدوں کیلئے باعث رشک بن جاتی ہیں..!!

--------------------------------------------------------

حضرت بہلول دانا رح کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی تو خلیفہ (جو آپ کو مجزوب اور دیوانہ سمجھتا تھا) نے ایک چھڑی اٹھا کر آپ رح کو دی اور مزاحاً کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اُسے دے دینا۔ حضرت بہلول رح نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ طبیبوں نے جواب دے دیا ۔ تو ایک دن حضرت بہلول دانا رح خلیفہ کی عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ کیا حال ہے؟ خلیفہ نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ حضرت بہلول رح نے پوچھا کہاں کا سفر؟ خلیفہ نے جواب دیا۔ آخرت کا۔ حضرت بہلول رح نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ خلیفہ نے کہا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس آتا ہے۔ حضرت بہلول رح نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ہارون الرشید نے کہا آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا، خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول رح نے فرمایا "اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے (خلیفہ ہارون الرشید کی دی ہوئی چھڑی بغل سے نکال کر کہا) یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر کی، جس میں واپسی بھی ناممکن ہے، آپ نے تیاری نہیں کی۔ میری نظر میں آپ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔" چھڑی واپس دے کر حضرت بہلول دانا رح چلے گئے اور اس ملاقات کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی طبیعت درست ہو گئی۔

-------------------------------------------------------

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔

شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟" "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔" "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون

ہو تم؟" "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"

بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

-------------------------------------------------------

ایک دفعہ حضرت بہلول دانا رح کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔ اس بچے نے کہا: اے بہلول! کیا ہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟ ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟ بچے نے کہا: اللہ تعالیٰ کی

عبادت کرنے آئے ہیں … انہوں نے کہا بچے ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے ابھی تو تمہارا اُس منزل پر آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے … تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے ۔

--------------------------------------------------------

ایک بار جناب بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے.. ایک تاجر کا وھاں سے گذر ھوا.. وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی.. " حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو.. " جناب بہلول نےفرمایا.. " کالا کپڑا لے لو.. " تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا.. جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا.. کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا.. ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا.. اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا.. اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ھی امیر کبیر ھو گیا.. کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا.. جناب بہلول وھاں تشریف رکھتے تھے.. وہ وھیں گھوڑے پر بیٹھے بولا.. " او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں.. " بہلول نے فرمایا.. " تربوز لے لو.. " وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے.. ایک ھی ہفتے میں سب خراب ھو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ھو گیا.. اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول سے ھوگئی تو اس نے کہا.. " یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا..؟

جناب بہلول نے فرمایا.. " میں نے نہیں ' تیرے لہجوں اور الفاظ نے سب کیا.. جب تو نے ادب سے پوچھا تو مالا مال ھو گیا.. اور جب گستاخی کی تو کنگال ھو گیا.. "

اس کو کہتے ھیں..

باادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب..!!

------------------------------------------------------

بہلول دانا رح بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدنیا درویش تھے ۔ان کا کوئی گھر ،کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔وہ عموما شہر میں ننگے پاؤں پھرتے رہتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے تھے۔ لوگ ان کے پیچھے پیچھے پھرتے رہتے تھے ۔ وہ جب کسی جگہ بیٹھ جاتے تھے تو لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے تھے… اس کے بعد بہلول دانا بولتے رہتے تھے اور لوگ ان کے اقوال لکھتے رہتے تھے ۔اگر کسی دن ان کا موڈ ذرا سا خوشگوار ہوتا تو وہ لوگوں کو سوال کرنے کی اجازت بھی دے دیتے تھے اور اس کے بعد لوگ ان سے مختلف قسم کے سوال پوچھتے رہتے تھے۔ ہارون الرشید بھی ان کا بہت بڑا فین تھا۔ جب کبھی بہلول دانا رح کا موڈ ذرا سا بہتر ہوتا تھا تو وہ بھی ان کی محفل میں شریک ہو جاتا تھا ۔ایک دن بہلول دانا محل کے پاس آ گے۔ ہارون الرشید کو اطلاع ملی تو وہ ان کے پاس حاضر ہو گیا ۔ بہلول رح نے ہارون الرشید کی طرف دیکھا اور غصے سے پوچھا :ہاں !بتاؤ کیا مسئلہ ہے ؟ ہارون الرشید نے کہا :حضور !جب اﷲ تعالی کسی حکمران سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو کیا تحفہ دیتا ہے ؟ بہلول دانا رح نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور بولے : اﷲ اسے درست اور بروقت فیصلے کی قوت دیتا ہے ۔ ہارون الرشید نے پوچھا :اور اگر اﷲ کسی حکمران سے ناراض ہو جائے تو وہ اس سے کون سی چیز چھین لیتا ہے؟ بہلول دانا رح نے چند لمحے سوچا اور ہنس کر بولے :فیصلہ کرنے کی قوت ۔ہارون الرشید نے پھر پوچھا :حضور! بادشاہ کو کیسے پتہ چلے گا کہ اﷲ اس سے خوش ہے یا ناراض؟ اس سوال پر بہلول دانا چند لمحے خاموش رہے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے :ہارون الرشید! جب اﷲ تعالی کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو وہ اس کو عزت اور مرتبے سے نوازتا ہے لیکن جب اﷲ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو وہ اس شخص کو نفرت کی علامت بنا دیتا ہے ۔خلق خدا اس سے پناہ مانگنے لگتی ہے اور اس کی زندگی عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ ہارون الرشید کے ماتھے کے شکنیں گہری ہو گئیں ۔اس نے ایک لمبی آہ بھری ۔اس کے بعد بہلول رح سے عرض کیا :اور حضور! جب اﷲ کسی بادشاہ سے ناراض ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔بہلول دانا نے غور سے ہارون الرشید کی طرف دیکھا، پھر مسکراے اور بولے :ہارون! جب کوئی شخص قدرت کے انجام کا شکار ہوتا ہے تو در در کی ٹھوکریں اس کا مقدر بن جاتی ہیں ۔وہ سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے تو ریت اس کی مٹھی میں آتی ہے ۔وہ اپنے تئیں اچھا فیصلہ کرنا چاہتا ہے یکن قدرت اسے بے عزت کر دیتی ہے ۔اس کے اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے تنگ آ کر اپنا گلہ خود ہی گھونٹ دیتا ہے

طالب د عا


 

Post a Comment

Previous Post Next Post