📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯صوفی باصفا مولانا محمد حبیب رضا قادری بریلوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: مولانا محمد حبیب رضا قادری۔
لقب: نور دیدہ مفتی اعظم ہند، صوفی باصفا۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے:
نور دیدۂ مفتی اعظم عالم باعمل مولانا صوفی محمد حبیب رضا قادری رضوی بن مولانا حسنین رضا بن استاذ زمن مولانا حسن رضا بریلوی، برادر اعلیٰ حضرت (علیہم الرحمہ )
تاریخ ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت ماہ ربیع الثانی 1352ھ، مطابق اگست 1933ء کو محلہ "کانکر ٹولہ " پرانا شہر بریلی شریف میں ہوئی۔
تحصیل علم:
حضرت مولانا حبیب رضا نے ابتدائی تعلیم گھر پر والدہ ماجدہ اور والد ِبزرگوار سے حاصل کی ۔فارسی تعلیم کے لیے دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں داخلہ لیا اور عربی فارسی کی اعلیٰ کتابیں پڑھیں۔ سلوک اور تصوف میں والد ماجد سے اکتساب فیض کیا۔ وقتاً وقتاً مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض ظاہری وباطنی سے مالا مال ہوئے۔ حضور مفتی اعظم کے وصال تک انہیں کی خدمت میں رہ کر نوری علم، نوری زہد، نوری تقویٰ سےسر شار ہوتے رہے۔ دارالعلوم منظر اسلام سے فراغت ہوئی۔
اساتذہ کرام:
۱۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی۔
۲۔ حکیم العلماء مولانا حسنین رضا خاں رضوی بریلوی۔
۳۔ صدر العلماء مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی۔
۴۔ سید الاتقیاء مولانا تحسین رضا قادری بریلوی
۵۔ حافظ انعام اللہ رضوی سابق مدرس شعبۂ فارسی منظر اسلام ۔
۶۔ حضرت مولانا سید احمد علی رام پوری۔
۷۔ حضرت مولانا غلام یٰسین پور نوی۔ (علیہم الرحمہ)
بیعت و خلافت:
مولانا صوفی حبیب رضا نے 25 صفر المظفر 1365ھ کو عرس رضوی بریلی میں حضور مفتی اعظم سے بیعت کا شرف حاصل کیا، اور 15صفر 1396ھ کو مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
سیرت و خصائص:
عالم باعمل، صوفی باصفا، پیکر صدق وصفا، پروردۂ نگاہِ شاہ مصطفیٰ رضاخان حضرت علامہ مولانا محمدحبیب رضا قادری رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔قدرت نے آپ علیہ الرحمہ کو حسن معنوی کے ساتھ حسن ظاہری سے بھی خوب نواز تھا۔پکا رنگ، گھنی داڑھی قدرے سفید، میانہ قد، آنکھوں پر کبھی کبھی عینک، مسکراتا چہرہ پر مروت و شرافت کا غازہ نمایاں، کلی دار کرتا، بڑی مہری کا علی گڑھی پاجامہ، دو پلی ٹوپی، کبھی کبھی شیروانی بھی زیب تن فرماتے تھے۔ آپ کی شخصیت میں مکمل طور پر بزرگانہ کشش پائی جاتی تھی۔
حضور مفتی اعظم اور آپ کے والد گرامی مولانا حسنین رضا علیہما الرحمہ ہم عمر تھے۔دونوں کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ ہوئی اور دونوں میں برادرانہ و دوستانہ تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے نہایت محبت کے ساتھ ملتے۔ ایسی محبت کہ جس کی نظیر اس زمانے میں حقیقی بھائیوں میں بھی نہیں ملتی۔ ہم عمر ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتےجس کو دیکھنے والے حیرت کرتے تھے۔ مولانا حبیب رضا بریلوی کے نانا جناب عبدالغنی خاں سب انسکپٹر پولیس بدایوں تھے۔ جو محکمہ پولیس کی ملازمت کے باوجود پابند شرع تھے۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جس کسی کے یہاں تفتیش کے لیے جاتے اُس کے یہاں کا پانی بھی پینا گوارہ نہ فرماتے۔
خدمات دینیہ اور فتویٰ نویسی:
مولانا صوفی حبیب رضا قادری نہایت سادگی پسند، خوش اخلاق، کم گو، اور فقیہ العصر تھے۔ باضابطہ طور پر کسی مدرسہ میں درس و تدریس کا موقع نہیں ملا۔ بعد فراغت آپ حضور اعظم قدس سرہٗ کے دولت کدہ پر رہتے اور آئے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے فتاویٰ اور خطوط کے جواب عنایت فرماتے۔ نیز حضور مفتی اعظم کے اکثر فتاویٰ کی نقل بھی آپ کے ذمہ تھی۔ اس نقل افتاء نے مولانا صوفی حبیب رضا کو ایک ماہر جزئیات فقہ اور متبحر عالم دین بنادیا۔ حضور مفتی اعظم کی صحبت کیمیا اثر نے وہ گل کھلائے جو کسی شیخ کامل کی بارگاہ میں برسہا بس رہنے سے بھی نہیں مل سکتا تھا ۔مولانا حبیب رضا قادری نے 1978ء میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا اور اصلاح حضور مفتی اعظم سے لیتے تھے۔مفتی اعظم قدس سرہٗ کے وصال کے بعد جانشین مفتی اعظم ،تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری القادری دامت برکاتہم القدسیہ نے مرکزی دارلافتاء کی بنیاد رکھی، اس میں خود بھی جانشین مفتی اعظم فتوی ٰ تحریر فرماتے، اور مولانا حبیب رضا بھی فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دیتےتھے، اور ساتھ ہی ساتھ "ادارہ سنی دنیا " کے اہتمام و انتظام کے فرائض بھی انجام دیے۔ آپ کی صلاحیتوں نے اس ادارہ میں چار چاند لگا دیئے۔
حضور مفتی اعظم کی محبت:
حضرت مولانا حبیب رضا بریلوی کے گھر سے مفتی اعظم کو جو تعلق تھا۔ اس کو دیکھنے والے آج بھی بکثرت موجود ہیں۔ پُرانا شہر بریلی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی بستی ہے۔ جو کئی محلوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مفتی اعظم قدس سرہٗ اس پوری بستی میں کہیں بھی تشریف لاتے تو مولانا حبیب رضا کے گھر ضرور تشریف لاتے، آپ کی شادی حضور مفتی اعظم کی نواسی سے ہوئی اور یہ بھی خوش نصیبی کہ حضرت کے دولت کدہ سے ہوئی۔ اسی طرح حضور مفتی اعظم آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے، اور بیٹوں والا ہی پیار دیتے تھے۔
ایک مرتبہ فرمایا: اللہ جل شانہ نے مجھےایک بیٹا عطا فرمایا تھا مگر وہ بچپن میں ہی چلا گیا۔اگر خدا کسی کو بیٹا دے تو حبیب میاں جیسا دے۔
نیز خطوط جو حضور مفتی اعظم نے مولانا حبیب رضا کے نام مختلف سفروں میں لکھے ان سے بھی آپ سے محبت وشفقت کا اظہار ہوتا ہے۔
ایک خط میں حضور مفتی اعظم تحریر فرماتےہیں:
بر خوردار نور الابصار حبیب میاں سلمہٗ الرحمٰن
وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
طالب خیر بحمدہٖ تعالیٰ مع الخیروالعافیہ ہے۔ مولیٰ تعالیٰ وہاں بھی تم سب کو بخیر و عافیت رکھے، تمہارے والدین کا سایہ رحمت تمہارے سروں پر باامن و عافیت رکھے، تمہاری والدہ کو صحت وطاقت و قوت عطا فرمائے۔ آمین ۔(فقیر مصطفیٰ رضا قادری غفرلہٗ)
حضور مفتی اعظم کی وصیتیں:
مولانا حبیب رضا علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم کے روز و شب دیکھے، خلوت و جلوت میں ساتھ رہے۔ اس لیے ان کا یہ عینی مشاہدہ ہے، جسے غور سے پڑھیے لکھتےہیں:
"حضور مفتی اعظم احکام شریعت پر عمل کی تاکید فرماتے تھے۔ نماز، روزہ، ، حج، زکوٰۃ کے علاوہ داڑھی کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ مسلمانوں کو اسلامی لباس میں دیکھنا پسند کرتے جس سے اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہو۔ قہقہہ لگا کر ہنسنا، گلے کے بٹن کھُلے رکھنا، آستین چڑھی ہونا، مغرورانہ انداز میں بیٹھنا ،مغرورانہ انداز سے چلنا ناپسند فرماتے، ٹائی باندھنا سخت نا پسند تھا۔ انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ قریب بیٹھے ہوئے مسلمان کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا اور پاؤں پھیلانا نا پسند تھا۔ جلسۂ وعظ یا محفل میلاد وغیرہ کے علاوہ اگر کوئی دنیاوی پروگرام کرتا تو فوراً ٹوکتے۔ عورتوں کا بے پردہ گھومنا، بلکہ بلا کسی خاص حاجت کے گھر سے نکلنا سخت نا پسند تھا۔ کچہری کو عدالت، سکھ کو سردار، گورنمنٹ کو سرکار کہنے سے منع فرماتے۔
(مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء،ص، 318)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 26/ جمادی الاولی 1335ھ، مطابق مارچ/2014ء کو ہوا۔ مزار شریف بریلی (انڈیا) میں ہے۔
ماخذ و مراجع: مفتی اعظم اور ان کے خلفاء۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
Post a Comment