فخر الاولیا سید الاصفیا محب النبی حضرت سیدنا شاہ خواجہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ
بارہویں صدی ہجری میں دہلی کی سرزمین پر اجمیری مدرسہ کی درسگاہ وہ مثالی درسگاہ تھی جس میں علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی کی بھی تعلیم ہوتی تھی۔وہاں کے فارغین نہ صرف علوم اسلامیہ میں تبحر و کمال حاصل کرتے تھے بلکہ تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے ذریعہ راہ سلوک کے منازل بھی طئے کرلیا کرتے تھے۔اس عظیم اور بافیض مثالی درسگاہ کی مسند پر فخر الاولیا سید الاصفیا محب النبی حضرت سیدنا شاہ خواجہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ جلوہ افروز تھے۔حضرت محب النبی کی ولادت با سعادت 1126 ھ میں بمقام اورنگ آباد مہاراشٹر ہوئی۔ سید الاصفیا قطب الارشاد حضرت کلیم اللہ جہان آبادی رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے عزیز مرید و خلیفہ نظام ثانی حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی کے یہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے تو آپ نے اس کا نام مبارک محمد فخر الدین تجویز فرمایا اور اپنا ملبوس خاص اس بچے کےلیے عنایت فرمایا۔ ساتھ ہی ساتھ اس بچے کے شاندار مستقبل کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لڑکا شاہ جہاں آباد میں ہدایت و ارشاد کی شمع روشن کرے گا۔
(مناقب فخریہ)
حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب والد کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے جبکہ آپ کی والدہ جن کا نام سیدہ بیگم تھا حضرت بندہ نواز گیسودراز کے خاندان سے تھیں۔حضرت فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ کے بہت سے القاب ہیں جیسے سید الاصفیا فخر الاولیا سید المتقین لیکن ان تمام القابات میں *محب النبی* آپ کا وہ لقب ہے جو آپ کے لیے اسم کے درج میں ہے۔جہاں محب النبی کہا گو ہر شخص کا ذہن آپ ہی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس لقب سے آپ ہی کی ذات مراد ہوتی ہے۔آپ کے اس لقب کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ آپ رحمہ اللہ علیہ نے خواب میں حضرت سرکار غریب نواز قدس سرہ اور حضرت چراغ دہلوی رضی اللہ عنہ کو اس لقب سے مخاطب کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
(سیر الاولیا)
حضرت محب النبی علیہ الرحمہ نے اپنے والد ماجد حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی اور دیگر کبار علمائے کرام سے شرف تلمذ حاصل کرکے متوسطات تک علم حاصل کیا۔ اس کے بعد استاذ العلما حضرت علامہ میاں محمد جان جیسے جید عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے فصوص الحکم۔صدرا۔ شمس بازغہ وغیرہ کتابیں پڑھیں۔
فقہ اسلامی میں تبحر و کمال کےلیے آپ نے اپنے زمانہ کے یکتائے روزگار فقیہ حاذق مفتی اور صاحب دل عالم حضرت علامہ عبد الحکیم علیہ الرحمہ کی فیض بخش صحبت اختیار کی اور ان کی شاگردی میں رہ کر فقہ حنفی کی معرف کتاب ہدایہ کو سبقا سبقا پڑھا اورفقہ اسلامی کا اس باریک بینی سے مطالعہ کیا کہ اس فن میں بھی آپ کو یدطولی حاصل ہوگیا اور استاذ نے آپ کو فقہ کی سند سے سرفراز فرماکر روانہ فرمایا اس کے بعد تحصیل علم کے شوق نے آپ کو دکن حیدرآباد کے عظیم عالم حافظ احادیث کثیرہ حضرت اسعد الانصاری المکی کی خدمت میں پہنچادیا۔ان سے آپ نے حدیث کا درس لیا اور سند حدیث حاصل کی۔اس طرح آپ نے پورے انہماک کے ساتھ علوم عربیہ کی تحصیل کی اور معقولات و منقولات میں تبحر و کمال حاصل کرکے مرجع علما و مشائخ ہوئے۔۔علوم دینیہ سے فارغ ہوکر آپ نے دیگر علوم و فنون کی بھی تعلیم حاصل کی طب اور تیراندازی سے متعلق کتابیں پڑھیں اور فنون سپہگری میں مہارت حاصل کی۔
حضرت والد ماجد قدس سرہ نے بچپن میں ہی آپ کو بیعت کرلیا تھا اور وصال سے قبل آپ کو اجازت و خرقہ خلافت مرحمت فرماکر اپنا جانشین منتخب فرما دیا تھا چنانچہ تعلیم سے فارغ ہوکر آپ اپنے والد کے سجادہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ پھر گمنامی کے شوق نے آپ نے اس کو الوداع کہا اور اخفائے حال کےلیے آپ نے لشکر میں ملازمت اختیار کرلی۔دن ملازمت کے کاموں میں بسر ہوتا تو رات اللہ کی عبادت و ریاضت میں گزرتی تھی۔ان دنوں آپ نے سخت ریاضت و مجاہدات کئے آپ خود تحریر فرماتے ہیں۔
من در ایام سابقہ محنت در مشغولی ہم بسیار کردہ ام
فخرالطالبین)
لشکر میں آپ نے اپنے حال کو مخفی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔لوگوں میں زہد و تقوی اور کمال ولایت کا چرچا ہونے لگا اور خلق خدا کا آپ کی طرف مرجوعہ ہوا جب شہرت بڑھنے لگی تو آپ لشکر چھوڑ کر اورنگ آباد چلے گئے۔ وہاں آپ نے گوشہ نشیں رہ کر عبادت و ریاضت میں منہمک رہنا چاہا لیکن یہاں بھی یہ ممکن نہ ہو سکا خلق خدا کا ہجوم آپ سے فیض حاصل کرنے کی غرض ہمہ دم آپ کی بارگاہ ناز میں حاضر رہتا۔والد مرشد کا اشارہ پاکر آپ نے دہلی کا سفر فرمایا یہاں آپ نے اپنے دادا پیر حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کے روضہ مبارک ہر حاضر ہوئے دادا مرشد کے پوتے نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا تین دن آ پ خانقاہ میں مقیم رہے پھر دہلی کے اجمیری مدرسہ کو آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ اور ارشادو ہدایت کا مرکز بنایا۔ آپ کی درسگاہ کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں نہ صرف قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی تھی بلکہ سلوک و معرفت کی بھی تعلیم دی جاتی تھی یہاں قرآن پڑھایا بھی جاتا تھا اور طالب علم کو قرآنی بنایا بھی جاتا تھا اجمیری درسگاہ کی اسی خصوصیت کے سبب لوگوں کا ہجوم دہلی کے اس مدرسہ کی طرف امنڈ پڑا اور ملک کے طول و عرض سے لوگ جوق در جوق آکر آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور اپنے مقصود کو پاکر فائز المرام ہوئے۔اس ضمن میں حضرت سید صادق علی مونس اللہ چشتی قمیصی قادری حضرت نورمحمد مہاروی حضرت سید بدیع الدین فخری حضرت ضیاء الدین فخری حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی وغیرہ یکتائے روزگار علمائے کرام نام قابل ذکر ہے جنھوں نے اجمیری درس گاہ میں آکر حضرت فخر پاک محب النبی سے علوم و ظاہری و باطنی کی تعلیم حاصل کی اور خمخانہ فخریہ سے فیض حاصل کرکے مرجع خلائق ہوئے۔حضرت محب النبی رضی اللہ عنہ شریعت و طریقت کےامام تھے۔قرآنی علوم میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔فقہ و حدیث آپ کا محبوب فن تھا معقولات و منقولات میں آپ کو ید طولی حاصل تھا۔جلیل القدر علمائے کرام آپ کی تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے اور آپ کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں فرماتے تھے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے جانشین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی جو اس وقت علمی دنیا کے صدر نشین تھے آپ کا اسم شریف جس والہانہ انداز میں ایک جگہ تحریر فرمایا ہے اس سے ان کی عقیدت و محبت ظاہر ہوتی ہے آپ لکھتے ہیں۔
برادر دینی جوہر حق گزینی سالک راہ خدا جوئی۔ملازم طریقہ صدق گوئی۔مقبول جناب مولانا عالی جناب خلائق مآب و بالفضل اولانا فخرالملۃوالدین محمد قدس اللہ سرہ الامجد
(تاریخ مشائخ چشت)
حضرت محب النبی رضی اللہ عنہ صاحب تصنیف بزرگ تھے آپ کی تصانیف میں 1 نظام العقائد 2 فخر الحسن 3 رسالہ مرجیہ قابل ذکر ہیں یہ تینوں رسالے آپ کے تبحر علمی کا آئینہ دار ہیں.سرسیر لکھتے ہیں۔
حضرت شاہ فخر الدین دہلوی کی کتابوں کا دیکھنا ان کی ممارست علمی پر دلیل قاطع اور برہان ساطع ہے۔
(1)نظام العقائد فارسی زبان میں عقائد اہل سنت سے متعلق نہایت جامع کتاب ہے۔
(2)رسالہ مرجیہ غوث اعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین کے ایک بیان کی تشریح میں لکھا گیا ہے۔
(3)رسالہ فخر الحسن اس کتاب کو حضرت محب النبی نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ایک بیان کی تردید میں تحریر فرمایا۔حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الانتباہ میں یہ اعتراض کیا تھا کہ از روئے اصول حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کا لقا و سماع ثابت نہیں ہوتا۔حضرت علامہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ نے اس کتاب میں اس بیان کی تردید فرمائی اور محدثانہ انداز میں کلام کرتے ہوئےاصول حدیث کہ روشنی میں یہ ثابت کیا کہ حضرت علی سے حضرت حسن بصری کا سماع و لقاصحیح و ثابت ہے ۔فخر الحسن کو اہل علم میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور صاحبان علم نے اس کتاب کو خراج تحسین پیش کیا ۔اپنے عہد کے عظیم عالم دین بحر العلوم حضرت علامہ عبد العلی فرنگی محلی نے جب اس رسالہ کا مطالعہ کیا تو اپنا تاثر ان الفاظ میں تحریر کیا وہ لکھتے ہیں۔احسن اعتقاد کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ بزرگوں نے لکھا ہے حق ہے لیکن یہ تحقیق جو مولانا نے کی ہمیں معلوم نہیں تھی۔
(تاریخ مشائخ چشت)
یہ رسالہ عربی زبان میں ہے اور ایک زمانہ سے منظر عام پر نہیں تھا یہ اللہ تبارک و تعالی کا شکر و احسان ہے کہ اس سال دار العلوم قادریہ غریب نواز ساوتھ افریقہ سے راقم الحروف کی ترتیب و تقدیم کے ساتھ یہ رسالہ پھر سے شائع ہوا ہے ۔اور ہندوستان میں خانقاہ غوثیہ اصدقیہ سہسرام میں 24 فروری کو اس جدید ایڈیشن کا رسم اجرا عمل میں آئے گا۔حضرت محب النبی رضی اللہ عنہ ایک عظیم محدث تھے ایک عظیم فقیہ تھے لیکن جو رنگ آپ پر غالب تھا وہ رنگ تصوف کا تھا آپ ایک عظیم الشان صوفی تھی اور ایک صوفی کی نزدیک مخلوق خدا کی خدمت سے عبارت ہوتی ہے حضرت فخر پاک کی پوری زندگی مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔آپ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور ہر ایک کی ضرورت پوری کرتے تھے کسی حاجت مند کو نفی میں جواب نہیں دیتے تھے۔آپ کے پاس جو بھی آتا آپ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے تھے اور اس سلسلے میں آپ چھوٹے بڑے کا فرق نہیں رکھتے تھے۔ حد یہ ہے کہ علالت اور امراض شدید میں بھی آپ اسی طرح آنے والے کا استقبال کرتے تھے۔آپ خلق عظیم کے مظہر تھے۔ایک مرتبہ آپ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے جب جہاز میں سوار ہونے لگے ایک بڑھیا نے بڑھ کر سوال کیا اور عرض کیا مجھے لڑکی کی شادی کرنی ہے اور میرا حال یہ ہے کہ فاقے کرتی ہوں۔کس طرح یہ کام انجام دوں۔شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی جہاز سے اپنا سامان اتارلیااور جو کچھ زاد راہ تھا اس بڑھیا کے حوالے کردیا اور خود وطن واپس گئے۔
(تاریخ مشائخ چشت)
آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی کو ایسا قلب عطا فرمایا تھا جو خدمت خلق کے جذبہ سے ہمیشہ سرشار رہتا تھا۔حضرت محب النبی کی زندگی سیرت نبوی کی آئینہ دار تھی۔آپ صرف دوسروں کو خیر کی نصیحت کے قائل نہیں تھے بلکہ خود اس پر عمل کرتے تھے۔آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تاریخ مشائخ چشت میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہاں درج ہے۔تاکہ معتقدین کو نصیحت ہو۔(1)آپ صادق الوعد تھے ۔وعدہ بہت کم کرتے تھے لیکن جب کرلیتے تو ایفائے عہد کرنے کو بے قرار رہتے تھے۔(2)شیخی اور اظہار بزرگی سے آپ کو سخت نفرت تھی۔جس کسی دعوت یا جلسہ میں تشریف لے جاتے تو لوگوں کو ساتھ چلنے کی اجازت نہیں دیتے۔اس سے نمائش ہوتی تھی اور یہ آپ کی بے ریا طبیعت کو پسند نہ تھا۔
(3) کوئی آپ کی تعریف کرتا تو آپ نہ پسند کرتے۔
(4)کوئی مرید اگر ہاتھ باندھ کر یا گردن جھکاکر ادب و تعظیم کا اظہار کرتا تو ناخوش ہوتے تھے۔
(5)کوئی شخص پاوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو روک دیتے اور ناراض ہوجاتےتھے۔
(6)جوشخص ملنے آتا تو اس کے فہم و ادراک کے مطابق گفتگو کرتے تھے۔
(7) مریدوں کو آپ ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص ہمیں برا کہے تو اس سے مکابرہ نہ کرو۔
(8) چھوٹی بڑی ہر بات میں خود اتباع سنت نبوی کرتے اور لوگوں کو بھی اس امر کی بڑی تاکید کرتے تھے۔
(9)تقریر کرتے تو ہمیشہ شریعت کے مطابق کرتے تھے۔
حضور محب النبی اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور غلام تھے۔آپ کا دل سنت نبوی کے جذبہ سے سرشار تھا۔آپ ہرمعاملے میں سنت نبوی کا خیال فرماتے تھے۔ایک مرتبہ کھانے کےلیے بیٹھے اور مریدین کو متوجہ کرکے فرمانے لگے کہ میں جس طرح بیٹھا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بیٹھا کرتے تھے۔ایک مقام پر حضرت محب النبی اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جنگ کے دوران میں بارود کے اثر سے آنکھوں کو نقصان پہنچ گیا تھا اور ڈر تھا کہ بصارت بہت کم ہو جائے گی لیکن سرمہ کے استعمال سے بصارت میں زیادہ کمی نہیں ہوئی۔یہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ متابعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔
(تاریخ مشائخ چشت)
حضرت محب النبی رضی اللہ عنہ سے دین و سلسلے کا خوب خوب فروغ ہو۔آپ کے خلفا دور دراز تشریف لے گئے۔آج پوری دنیا میں فخری خانقاہیں قائم ہیں اور وہاں حضرت فخر پاک کے فیضان کی بارش ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو سلسلہ نظامیہ چشتیہ کا مجدد کہا جاتا ہے۔ماہر چشتیت پروفیسر خلیق احمد نظامی آپ کے تجدید کارنامے پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔
حضرت شاہ فخر الدین علیہ الرحمہ کو بجا طور پر نظامیہ سلسلہ کا مجدد کہاجاتا ہے۔انہوں نے نظامیہ سلسلہ کو نئی زندگی بخشی اور اپنے خلفا کو ملک کے دور دراز حصوں میں بھیج کر نظامیہ سلسلہ کی خانقاہیں قائم کرائیں۔
(تاریخ ۔مشائخ چشت)
حضرت شاہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ کا وصال 27 جمادی الثانی 1199ھ کو ہوا اس وقت آپ کی عمر شریف 73 سال تھی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے احاطہ میں آپ کے روضہ سے قریب حضرت فخر الدین دہلوی کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے ہر سال تاریخ وصال پر عرس کا اہتمام ہوتا ہے۔
Post a Comment