مفتی آل مصطفی مصباحی علیہ الرحمہ، حیات و خدمات
تحریر : محمد شفاء المصطفی شفا مصباحی
استاذ العلماء والفقہاء فقیہ العصر محقق مسائل شرعیہ حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی علیہ الرحمہ والرضوان
حضرت علامہ مفتی آل ِ مصطفیٰ صدیقی اشرفی مصباحی
استاد و مفتی - جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
زین الفقہاء، شمس المحققین حضرت علامہ مولانا مفتی آل ِ مصطفیٰ صدیقی اشرفی مصباحی ابن حضرت علامہ مولانا مفتی شہاب الدین اشرفی لطیفی ابن علامہ منشی نجابت حسین صدیقی کی ولادت شہجنہ، بارسوئ، ضلع کٹیہار ،بہار میں ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں ہوئی۔ والد گرامی حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی لطیفی حضرت ملک المحدثین ملک العلماء حضرت علامہ مفتی سید ظفر الدین رضوی فاضل بہار علیہ الرحمہ کی ارشد تلامذ ہ میں سے تھے اور حضرت سرکارِ کلاں حضرت علامہ مولانا مفتی سید مختار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی کےمرید و خلیفہ تھے۔حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ قبلہ کے نانا حضرت قاضی ثمیر الدین رشیدی علیہ الرحمہ جامع معقول ومنقول حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رامپوری ثم جونپوری علیہ الرحمہ کے شاگردں میں سے تھے۔
حضرت مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب میں ہوئی، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم،حورا حجرا، سوناپور ، کٹہار مین ہوئی، پھر مدرسہ فیض العلوم ، محمد آباد، گوہنہ میں داخلہ لیا، اوراس کے بعد جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور سے دورہ ٔ حدیث و مشق ِافتاء مکمل کیا اور ۱۹۸۹ میں فارغ ہوئے۔
آپ کے اساتذہ میں آ پ کے والد ِ گرامی مفتی شہاب الدین صاحب اشرفی، صدر العلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ، حضرت علامہ مولانا علامہ مفتی مطیع الرحمان مضطر رضوی،حضرت علامہ مولانا نصر اللہ خان رضوی مصباحی بھیروی،حضرت علامہ مولانا عارف اللہ اشرفی مصباحی فیضی، حضرت علامہ مولانا مفتی شمس الہدیٰ مصباحی، حضرت سراج الفقہاء علامہ مفتی نظام الدین برکاتی رضوی مصباحی ، محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی ، محدث کبیر علامہ مولانا ضیاء المصطفیٰ قادری رضوی امجدی و شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی جیسے اکابرین شامل ہیں۔اجازتِ فقہ مفتی شریف الحق ، اجازتِ حدیث حضرت بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی، علامہ ضیاء المصطفیٰ اور اپنے والدِ گرامی حضرت شہاب الدین اشرفی سے حاصل کی۔
حضرت علامہ مولانا مفتی آل ِ مصطفیٰ صاحب کوبیعت کا شرف حضرت سرکار کلاں مخدوم المشائخ مفتی سید مختا راشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے حاصل ہے اور حضرت شیخ الاسلام ، رئیس المحققین حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی سے خلافت سلسلۂ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ حاصل ہوئی، اس کے علاوہ آپ کو دیگر اکابرین سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے۔جامعہ اشرفیہ کی فراغت کے بعد ،حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ قبلہ نے اپنے استاد گرامی محدث کبیر کی دعوت پر جامعہ امجدیہ گھو سی تشریف لےگئے۔یہاں آپ کے ذمہ مروجہ علوم و فنون کی منتہی کتابوں کی تدریس ، شعبۂ تخصص فی الفقہ کی نگرانی،، اصول ِ افتاء کی تدریس اور فن افتاء کی مشق و تربیت ہے۔ آپ کی اہم تصنیفات، تالیفات اور تحقیقات میں : سوانحِ صدر الشریعہ، بیمہ ٔ زندگی کی شرعی حیثیت،کنز الایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ، منصبِ رسالت کا ادب و احترام ، اسبابِ ستہ اور عموم بلویٰ کی توضیح و تنقیح، روداد مناظرہ بنگال،بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول،نقشہ ٔدائمی اوقات صلوٰۃ براے ٔ گھوسی، حاشیہ فتاویٰ امجدیہ(صدر الشریعہ) جلدِ سوم و چہارم،حاشیہ توضیح عربی (مجلسِ برکات)وغیرہ ہیںاور تقریباً ۳۰سےزائد علمی و تحقیقی مضامین ہیں جو مختلف جرائد و ماہنامہ میں شائع ہو چکے ہیں۔
حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ’’ مجلس ِ شرعی‘‘ جامعہ اشرفیہ کے اہم رکن بھی رہے ۔اور ہند و پاک کے صفِ اول کے فقہاء و محققین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ جن پر سلسلۂ اشرفیہ اور ساری سنیت کو ناز ہے۔ حضرت کے فتاویٰ کے تین ضخیم رجسٹر حضرت کے پاس رہ پاے ٔ ہیں ہنوز غیر مطبوعہ ہیں، علم اورعرفان سے بھر پور ہیں۔
علامہ محمد صدرالوری قادری استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
رقمطراز ہیں:
آہ میرا رفیق درس مجھ سے رخصت ہوا
آج مورخہ ١٠/ جنوری ٢٠٢٢ء بعد نماز فجر موبائل فون کھولا تو بڑی دکھ بھری خبر پڑھنے میں آئی کہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی آج رات انتقال فرما گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔
بڑا دکھ ہوا بڑا افسوس ہوا۔ ابھی حال ہی میں عرس عزیزی میں ان کے دیار سے آنے والے علمائے کرام سے ان کی خیریت دریافت کیے تھے۔ اس وقت کیا معلوم تھا کہ جس کی خیریت کے بارے میں میں پوچھ رہا ہوں وہ بس دو تین روز کا اور مہمان ہے۔ پھر وہ اس دار فانی سے کوچ کر جاے گا۔
مفتی آل مصطفیٰ مصباحی میرے بڑے خاص رفقائے درس میں سے تھے، درجۂ خامسہ میں وہ جامعہ اشرفیہ میں داخل ہوے، درجہ فضیلت تک مکمل رفاقت رہی ہم لوگ شانہ بشانہ درس گاہوں میں حاضر ہوتے اور ہم میں ہر ایک کے اندر جذبۂ مسابقت بھی ہوتا، فراغت کے بعد بھی جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی میں چھ سال تک رفاقت رہی۔ پھر میرا تقرر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ہو گیا۔ جس پر میرے رفیق نے مبارک باد پیش کی تھی۔
مفتی آل مصطفیٰ مصباحی سے فقہی سیمینار وغیرہ میں اگرچہ میری نوک جھونک ہوا کرتی تھی مگر یہ نوک جھونک خالص علمی و تحقیقی ہوتی، جسے نہ وہ دل پہ لیتے نہ میں لیتا۔ اسی لیے مندوبین اس نوک جھونک سے محظوظ بھی ہوتے اور یہ تأثر دیتے نظر آتے کہ سمینار میں جب آپ دونوں کی رائے الگ الگ ہوتی ہے اس وقت سمینار کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے کیون کہ آپ لوگوں کی بحثیں سننے میں بہت اچھا لگتا ہے۔
مجھے جب اپنی جماعت کا امتیاز اور کچھ خاص رفقائے درس کو بیان کرنا ہوتا ہے اس وقت میں مفتی آل مصطفیٰ کا نام ضرور لیتا ہوں کیونکہ یہ میرے مایہ ناز رفیق ہی نہیں بلکہ میرے دوست بھی تھے۔ ان کی ذہانت اور علمی قابلیت کا میں ہمیشہ معترف رہا۔
مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ایک باکمال مدرس، پختہ قلم کار، اور ایک بالغ نظر مفتی تھے، جن کے فتاوی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی علمی و دینی خدمات إن شاءالله ان کے باقیات صالحات میں شمار ہوں گی۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ مفتی موصوف کی مغفرت فرمائے ان کی دینی خدمات قبول فرمائے، درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
محمد صدرالوری قادری
استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور
١٠/جنوری ٢٠٢٢ء
!