سلطان العاشقین ،برہان الواصلین،حجۃ الکاملین،دلیل المتوکلین،رئیس الاتقیاء،شیخ الاصفیاء،جامع السلاسل صاحب البرکات حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بالخصوص پاک وہند میں محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کے تینتیسویں امام اور شیخ ِ کامل تھے۔آپ کی ذات ستودہ صفات شریعت وطریقت وحقیقت کا مجمع البحرین تھی۔یہ حقیقت ہے کہ آپ تمام سلاسلِ طریقت کے جامع تھے،اور تمام میں اجازت وخلافت،اورادووظائف کی مکمل اجازت حاصل تھی۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نورالعارفین حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم وحکمت و سلوک ومعرفت کا شہرہ سنا توکالپی شریف جانے کا رخت سفر باندھا ۔ کالپی شریف اس وقت علم وحکمت وتہذیب وتمدنِ اسلامی کا قبلہ تھا ۔آپ سفر کی صعوبتیں اُٹھا کر نُور العارفین حضرت سید شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگا عالی وقار میں پہنچے تو انہوں نے تین بار فرمایا":دریا بدریا پیوست "یعنی دریا دریا میں مل گیا ۔ صرف اسی کلمے ہی سے حضرت سید میر شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سید شاہ برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلوک وتصوف اور دیگر بہت سے مقامات کی سیر کرادی ۔ پانچوںسلاسلِ طریقت کی اجازت ہونے کے باوجود حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عقیدت کی بنا پر سلسلہ عالیہ قادِریہ میں بیعت فرماتے۔آپ نے 26 سال تک روزہ رکھا وہ سارا دن روزہ رکھتے اور افطار کے وقت صرف ایک کھجور کھاتے۔ راتوں کو جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے۔ آپ فجر کی نماز کے بعد سے لے کر نمازِ اشراق تک وظائف میں مشغول رہتے۔ نمازِ چاشت کے وقت مدرسہ جایا کرتے اور وہاں موجود طلباء اور عقیدت مندوں کو علم سے سیراب فرماتے۔ آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ نمازِ ظہر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کا آغاز کرتے اور عصر کی اذان سن کر تلاوت روک دیتے۔ عصر سے مغرب کے دوران سالکین طریقت کی روحانی پیاس بجھاتے،اور ان کی مشکلات کوحل فرماتے۔
خاندانی تاریخ:
ان کے جد امجد حضرت ابوالفرح رضی اللہ عنہ ہندوستان منتقل ہوئے تھے۔ ان کے وصال کے بعد ان کے پوتے حضرت سید شاہ محمد صغریٰ رضی اللہ عنہ ہندوستان تشریف لائے۔ سلطان شمس الدین التمش ان کی بہت عزت کی اور انہیں بلگرام کے راجا کے برابر فوج دے کر شہر کو فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے بلگرام شہر کو فتح کیا ۔ وہاں انہوں نے اسلام کے جھنڈے کو مضبوطی سے گاڑتے ہوئے بہت سے لوگوں کے دل اسلام کی طرف پھیر دئیے۔ سلطان التمش ان سے بہت خوش ہوئے اور بلگرام انہیں ایک جاگیر کے طور پر دے دیا۔ بھر فاتح بلگرام،حضرت سید شاہ محمد صغریٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے بقیہ خاندان کو بھی بلگرام بُلا لیا۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 26 جمادی الثانی 1070ھ،مطابق مارچ 1660ء کو بلگرام (انڈیا)میں ہوئی۔
نام ونسب: اسمِ گرامی:سید برکت اللہ ۔القاب: صاحب البرکات،سلطان العاشقین۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی بن سید اویس بن سید عبدالجلیل بن سید عبدالواحد بلگرامی بن سید ابراہیم بن سید قطب الدین ۔الیٰ آخرہ۔رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے۔
تحصیلِ علم: حضرت سید شاہ برکت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنے والدحضرت سید شاہ اویس رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں تفسیر، حدیث،اورعلم الحدیث، فقہ اور اصول الفقہ جیسے علوم سیکھے،اور وقت کے جیدعلماء میں شمارہونےلگے۔
بیعت وخلافت: آپ کے والد ِماجد نے جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما کر سلاسل خمسہ۔ قادِریہ، چشتیہ، نقشبندیہ ، سہروردیہ، مداریہ میں بیعت لینے کی بھی اجازت عطا فرمائی۔پھر حضرت شاہ فضل اللہ کالپوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور خلافت سے سرفرازکیےگئے۔
عبادت و ریاضت:
انہوں نے 26 سال تک روزہ رکھا وہ سارا دن روزہ رکھتے اور افطار کے وقت صرف ایک کھجور کھاتے۔ وہ راتوں کو جاگ کر اللہ عزوجل کی عبادت کرتے۔ آپ فجر کی نماز کے بعد سے لے کر نمازِ اشراق تک وظائف میں مشغول رہتے۔ وہ نمازِ چاشت کے وقت مدرسہ جایا کرتے اور وہاں موجود طلباء اور عقیدت مندوں کو علم سے سیراب فرماتے۔ ان کا ایک معمول یہ تھا کہ وہ نمازِ ظہر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کا آغاز کرتے اور عصر کی اذان سُن کر تلاوت روک دیتے۔ عصر سے مغرب کے دوران وہ سالکین طریقت کی روحانی پیاس بجھاتے۔
سلسلہ برکاتیہ:
صاحب البرکات سیدنا شاہ برکت اللہ مارہروی نے باقاعدہ مارہرہ میں سکونت اختیار کی اور رشد و ہدایت کے لیے خانقاہ کی بنیاد ڈالی، یہی خانقاہ آج پورے عالم میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے نام سے جانی جاتی ہے- یوپی کا یہ گمنام قصبہ صاحب البرکات کی نسبت اور ان کے فیض سے آج طریقت و معرفت اور رشد و ہدایت کی علامت بن گیا ہے۔ اس خانقاہ سے بیعت مشائخ اور خلفاء کے سلسلے کو برکاتیہ کہا جانے لگا۔ اور قادری برکاتی لکھا جانے لگا۔ دراصل یہ سلسلہ عالیہ قادریہ ہی ہے اس خانقاہ کے مریدوں میں سے ایک عظیم عالمِ دین اور صوفی، امام اہلسنت اعلیٰ حضرت مولانا مولوی احمد رضا خان اپنے علمی اور تحقیقی کام کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ وہ اپنے مُرشد خانے کا بہت احترام کرتے تھے۔
شعر و ادب:
سید برکت اللہ مارہروی کو شعر و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ عربی اور فارسی کے علاوہ اردو (ہندوی، ریختہ) اور سنسکرت پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ عربی میں ’’عشقی‘‘ اور ہندی میں ’’پیمی‘‘ تخلص فرماتے تھے۔
وصال: آپ کاوصال 10/محرم الحرام 1142ھ،مطابق اگست/1729ءکو ہوا۔آپ کامزارمارہرہ مطہرہ میں مرجعِ خلائق ہے۔
Post a Comment