Biography Mufti Nizamuddin Ahmed Noori Baraon Shareef تعارف حضرت علامہ مفتی نظام الدین احمد نوری

 تعارف حضرت علامہ مفتی نظام الدین احمدنوری نورالله مرقدہ (براؤں شریف)

Biography Mufti Nizamuddin Ahmed Noori Baraon Shareef

 تعارف حضرت علامہ مفتی نظام الدین احمد نوری



مولانا ازہرالقادری کے سواگ وار قلم سے 

حضرت علامہ مفتی نظام الدین احمد نوری بن الحاج الطاف حسین موضع بڑہراکندھئی تھانہ پورند پور ضلع مہراج بیج میں ۵ فروری 1962ء کو پیدا ہوئے۔ 

! ابتدائی تعلیم ( درجہ اول تا پنجم ) موضع مذکور کے مدرسہ عربیہ اہل سنت نور الاسلام میں مولانا محمد اسلام مرحوم اور مولانا نیاز احمد صاحب کے زیر سایہ حاصل کی ۔

 ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم کے لیے کچھ دنوں تک دارالعلوم برکاتی مؤید الاسلام مگہر میں زیرتعلیم رہے حضرت مولا ناذ کی صاحب آپ کے فارسی کے خاص استاذ ہیں ۔اس کے بعد مرکزی درس گاہ دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف میں داخل ہوئے اورو میں پرفضیلت تک کی تعلیم حاصل کی ۔

 اور۲۲ محرم الحرام ۱۴۰۳ھ مطابق ۷نومبر ۱۹۸۲ء میں علما کے مقدس جھرمٹ میں بموقع عرس شعیب الاولیاءاور سالانہ جلسہ دستارفضیلت کی تقریب پرعلامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ اور دیگر علما ومشائخ کے مقدس ہاتھوں سند فراغت اور دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے ۔ بفضلہ تعالی درس نظامی کی استاد کے علاوہ مدرسہ تعلیمی بورڈ اتر پردیش کے امتحانات ( منشی ،مولوی ، عالم ، کامل اور فاضل ) میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی ۔ 

اساتذہ کرام میں شیخ العلماء علامہ غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ سلطان الواعظین علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ سلطان المناظر ین مفتی عتیق الرحمن خان نعیمی علیہ الرحمہ حکیم ملت علامہ نعیم الدین گورکھ پوری علیہ الرحمہ فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ استاذ العلماء علامہ محمد یونس نعیمی علیہ الرحمہ ۔حجۃ العلم مفتی محمد قدرت اللہ رضوی علیہ الرحمہ استاذ الاساتذہ و علامہ سیداحمد انجم عثمانی،  مفکر اسلام علامہ غلام عبد القادرعلوی مدظلہ العالی کے اسماے گرامی قابل صدافتخار ہیں ۔

 مفتی محمدمستقیم مصطفوی نوراللہ مرقدہ ، مفتی ابوطالب فیضی ، مفتی ظہور احمد بہار، مولا نامحمد صفی اللہ مہراج گنجوی کے اسمارفقاے درس کے حوالے سے بطور خاص ہیں ۔

 بعد فراغت آپ نے اپنے تدریسی زندگی  کا آغاز جامعہ عربیہ اہل سنت معراج العلوم بھد وکھر بازار سدھارتھ نگر یوپی سے کیا اور وہاں ۲ سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد صو بہ گجرات کے مشہور شہر دھوراجی میں واقع اہل سنت کے عظیم ادارہ دارالعلوم مسکینیہ میں ۶ سال تک درس و تدریس کے ساتھ مسلک اعلی حضرت کی خوب خوب نشر واشاعت کی پھر باند ہ ضلع میں واقع دار العلوم عربیہ اسلامیہ اہل سنت سعدی مدن پور میں ۸ سال تک بحیثیت صدرالمدرسین اپنے فرائض منصبی کو بحسن وخوبی نبھایا۔

 1999ء میں دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کے ارباب بست و کشاد خصوصا شہزادہ شعیب الاولیا مفکر اسلام پیر طریقت حضرت علامہ غلام عبدالقادرعلوی مدظلہ العالی کے اشا رۂ ابرو پر روانہ وار رہتے ہوئے اپنے مادرعلمی کی خدمات کو معراج زندگانی تصور کرتے ہو ئے تادم تحریر تشنہ گان علوم نبویہ کے دلوں میں علم دین کے حوالے پھوٹتی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنانے میں ہمہ دم مصروف عمل رہے ۔

درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی حد درجہ مذاق رکھتے تھے۔ آپ کی قلمی کارنامے بھی اظہر من اشتمس اور اجلی من القمر ہیں۔ شریعت اور صوفی‘‘ مذکورات شرح منشورات، انہج التشریحات شرح مرقات‘‘اور’’ اصول فقہ جیسی کامیاب کوششیں آپ کے قلم کا جو ہر ہیں ۔

 آپ کا شاعرانہ ذوق بھی قابل داد تحسین ہے ۔ تنگ قوافی میں بھی آپ بڑے بڑوں کا قافیہ تنگ کر دیتے تھے۔ نئی نئی زمینوں اور غیر معروف بحروں میں بھی فی البدیہہ اشعار کہہ لینا یہ آپ کا خاص وصف تھا۔ میرے اس دعوی کی مستحکم دلیل مطاع بخشش‘‘ کی صورت میں زیر ترتیب تھی ۔ جس میں حمد نعت اور منقبت کے گل ہاے رنگا رنگ ،مشام جاں کو معطر کر نے کے لیے کافی ہوں گے ۔

 آپ کی شان خطابت بھی نا قابل فراموش تھی ۔ مقتضاے حال کے مطابق گفتگو ، قصے کہانیوں سے اجتناب اور قرآن وحدیث سے مدلل بیان ، سامعین کے قلوب واذہان کومنور ومجلیٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ میرے اپنے خیال کے مطابق آپ کی تمہید ہی اصل تقریر ہوتی ہے ۔ تقریر سے پہلے موضوع کے موافق دو چار بند ولولہ انگیز اور انقلابی اشعار ( جوعموما آپ ہی کے لکھے ہوئے ہوتے ہیں ) سے سامعین کے دلوں پر قبضہ کر لینا آپ کے معمولات سے تھا۔

بحیثیت خطیب اور مبلغ، حضور شعیب الاولیاء کے مشن کو عام و تام کرنے کے لیے وطن عزیز ہندوستان کے اکثر صوبہ جات اور پڑوسی ملک نیپال کا دورہ کرتے رہے ۔

تدریسی تصنیفی اورتبلیغی مشاغل کے ساتھ ساتھ مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت ہی مستقبل کے عزائم میں سے تھے۔

آپ نے دو بارحج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا 1999میںتنہا پہلا سفرحج کا شرف حاصل کیا  اور ۲۰۰۳ء میں دوسرا سفر حج والدین کے ہم راہ۔

شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل تھی ، اس وجہ سے آپ کے نام کے ساتھ کہ ’’نوری‘‘ کالا حقہ بھی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اوریہی آپ کا شاعرانہ تخلص بھی ہے ۔ تاج الشریعہ حضور از ہری میاں علیہ الرحمہ اور سرکار مسولی حضرت گلز ارملت اطال الله عمر ہ سے تمغہ خلافت بھی حاصل تھا۔

( ’’معارف سلطان المناظرین‘‘ ص:۳۲۳ تا ۳۲۵ مطبوعہ مئی ۲۰۲۲) 

افسوس صد افسوس!! مورخہ ۲۲ شوال المکر م۱۴۴۳ ھجری ۲۴مئی ۲۰۲۲ ، بروز منگل بوقت صبح کسی جلسے میں شرکت کر واپسی پراٹوا بانسی مارگ برگد وا موڑ پر آپ اور آپ کے صاحبزادے مولانا انوار بابو بھی ایک اکسیڈنٹ میں شہید ہو گئے !!! اناللہ واناالیہ راجعون!

 جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مہٹنا کے جملہ اسا تذہ اور طلبہ کی جانب سے ان کے اہل خانہ کو تعزیت پیش ہے ۔

 رب قد مر مرحومین کو جنت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین! بجاہ سید المرسلین ۔

آنکھیں روروکے سوجانے والے

 جانے والے نہیں آنے والے

شائع کردہ:۔شعبہ نشر واشاعت جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مٹہنا ،کھنڈ سری ،سدھارتھ نگر یوپی ۔انڈیا۔


Previous Post Next Post